۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
آیت الله مدنی

حوزہ/ ایران کے صوبہ تبریز میں ایک دور تھا جب اسلامی انقلاب کے بعد وہاں عدالتیں تشکیل نہیں پائی تھیں اور شہید آیت اللہ مدنی خود ہی مختلف مقدمات کی نگرانی کرتے اور حکم دیتے تھے، اسی زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے

حوزہ نیوز ایجنسی|ایران کے صوبہ تبریز میں ایک دور تھا جب اسلامی انقلاب کے بعد وہاں عدالتیں تشکیل نہیں پائی تھیں اور شہید آیت اللہ مدنی خود ہی مختلف مقدمات کی نگرانی کرتے اور حکم دیتے تھے، اسی زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے:

ایک دن ایک حاملہ عورت کو عدالت میں لایا گیا جس پر بد اخلاقی کے الزامات لگے تھے، فیصلہ کیا گیا کہ بچے کی ولادت تک وہ قید میں رہے گی اور پھر اس کے بعد اس کا مقدمہ چلایا جائے گا، چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک نوجوان لڑکا عدالت میں آیا جس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا، اس نے کہا کہ میری بہن کو جیل لے جانے والے گارڈ نے اس پر تشدد کیا ہے۔

آیت اللہ مدنی نے فوراً اس گارڈ کو واپس بلایا اور اس سے پوچھا: ’’کیا تم نے اس لڑکے کو مارا؟‘‘ گارڈ نے جواب دیا: ’’ہاں، اس نے بد تمیزی کی اور مجھ سے پوچھا کہ تم میری بہن کو کہاں لے جا رہے ہو؟‘‘

آیت اللہ مدنی نے کہا: ’’تو تمہیں اسے بتانا چاہیے تھا کہ تم اسے جیل لے جا رہے ہو، اسے کیا پتہ کہ تم اس کی بہن کو کہاں لے جا رہے ہو؟‘‘ پھر انہوں نے حکم دیا کہ اس گارڈ کی بندوق لے لی جائے اور لڑکے سے کہا کہ جا کر اپنے چہرے سے خون صاف کر کے واپس آئے۔

جب لڑکا واپس آیا تو آیت اللہ مدنی نے اس سے کہا: ’’جس طرح اس نے تمہیں مارا تھا، تم بھی اسی طرح اسے تھپڑ مارو۔‘‘ لڑکا حیران رہ گیا اور کہا کہ میں اسے معاف کرتا ہوں، لیکن آیت اللہ مدنی نے خود اس گارڈ کو ایک تھپڑ مارا اور کہا: ’’ چاہے تم کسی بھی عہدے پر ہویا ادارے میں ہو، تمہیں عوام کے ساتھ ایسے برتاؤ کا کوئی حق نہیں۔‘‘

اس کے بعد آیت اللہ مدنی نے کہا کہ اس گارڈ کو جیل میں دوبارہ تعینات نہ کیا جائے۔ لڑکے نے جاتے ہوئے کہا: ’’اگر ایسا منصف شخص میری بہن کا مقدمہ سنیں گا، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، چاہے میری بہن کو سزائے موت ہی کیوں نہ دی جائے۔‘‘

حوالہ: کتاب سید اسداللہ، علی‌اکبری، صفحہ 117۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .